مختلف نام:مشہور نام گل عباسیـہندی گل عباسـسنسکرت کرشنا کلی، ولبھا جسنیـمدراسی پتر آشوـپنجابی گلاں بانسـفارسی گل عباس ،گل عباسیـ لاطینی میں مرابلس جالپا(Mirabilis Jalappa) اور انگریزی میں فورو کلاک فلاور(Fouro Clock Flower) کہتے ہیں۔
مقام پیدائش:ایک سدا بہار پودا ہے اور لگ بھگ ہر جگہ لگایا جاتا ہے۔موسم سرما میں پھول کم دیتا ہے۔
شناخت:دو یا اڑھائی فٹ اُونچا جھاڑدار پودا ہے۔پتے شیشم یا پان کے پتوں سے ملتے جلتے نوک دار ،مگر پان سے چھوٹے اور شیشم کے پتوں سے بڑے ہوتے ہیں۔پھول نہایت خوبصورت اور چار قسم کے گلابی ،پیلے،پھول انار کی طرح لال اور سفید ہوتے ہیں۔ذائقہ تیز و تند ہوتا ہے۔ڈاکٹر آر،این چوپڑہ نے اپنی انگریزی کتاب “ہندوستانی نباتی ادویہ”میں اسے دست لانے والا پودا لکھا ہے۔
مزاج:گرم خشک تیسرے درجہ میں،پھول معتدل،جڑ گرم تر اور بیج سرد خشک۔
مقدار خوراک:جڑ 5گرام سے 10 گرام۔بیج اور پھول 5گرام سے 7گرام تک،پتے ایک سے پانچ گرام تک۔
فوائد:بیرونی استعمال کرنے سے اورام اور داد کے لئے مفید ہے،مصفئ خون ہے۔جڑ شادی سے پہلے و شادی کے بعد کی کمزوری میں مفید ہے اور مغلظ منی ہے۔اس کے پتوں کو کوٹ کر ورم پر باندھنے سے ورم تحلیل کرتا ہے اور مواد زیادہ ہو تو اسے پکا کر پھوڑ دیتا ہے۔اس کے پھولوں کا سفوف کثرت ایام ،خونی بواسیر و سیلان کے لئے بھی مفید ہے۔
سوجن:گل عباسی کے پتے ،بانسہ کے پتے ہر ایک 50 گرام ،ارنڈ کے پتے 25گرام۔پانی میں جوش دے کر سوجن کے مقام پر پر باندھیں یا بھپارہ دیں۔ بہت ہی مفید ہے۔
کمزورئ معدہ:گل عباسی کی بھجیا10گرام پکا کر کھانا کمزوری معدہ کے لئے مفید ہے۔
گُلِ عباسی سے تیار ہونے والے کشتہ جات
کشتہ ہڑتال:ہڑتال دس گرام کی ایک ڈلی نغدہ گل عباسی سفید کے درمیان میں رکھ کر دو اپلوں میں جن کا وزن 250ـ250گرام سے زیادہ نہ ہوگڑھا کھود کر رکھیں اور گل حکمت کر کے پانچ چھ کلو دہکتے ہوئے کوئلوں پر رکھیں۔آگ سرد ہونے پر بارہ گھنٹے کے بعد نکالیں۔سفید رنگ کا کشتہ تیار ہو گا۔آدھی سے ایک رتی بالائی میں دیں ۔کوڑھ زہریلے امراض،بلغمی بخاروں ، جلدی امراض اور فسادِ خون میں بہت مفید ہے۔
کشتہ سیسہ:سیسہ کو باریک سوہان کر کے گل عباسی کے رس میں خوب کھرل کریں ۔جب خشک ہو جائے تو پوست کے پانی میں دوپہر تک کھرل کریں پھر کوزہ گلی میں گل حکمت کر کے چھ کلو اپلوں کی آگ دیں ۔اس کے بعد 50 گرام دودھ آک میں کھرل کرکے بدستور تین کلو اپلوں کی آگ دیں۔ پھر اسی طرح لعاب گھیکوار میں کھرل کر کے آگ دیں۔عمدہ کشتہ تیار ہو گا۔ ایک سے دو چاول بالائی دس گرام کے ساتھ استعمال کریں۔ جریان کے لئے مفید ہے۔
کمر درد کا علاج گُلِ عباسی
کمر کا درد ایک ہٹیلی بیماری ہے۔یہ انسان کو کاروبار کرنے اور چلنے پھرنے سے روک دیتی ہے۔ایک خوبصورت اور اچھی شکل و صورت کا آدمی عوام کی نظروں میں نشانہ بن کر رہ جاتا ہے۔موجودہ سائنس کے دور میں اس مرض کا تسلی بخش علاج سامنے نہیں آیا۔ مریض کو آرام کا مشورہ دے دینا ہی علاج نہیں کہا جا سکتا ۔ مریض تو خود ہی چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔موجودہ وقت کے ترقی یافتہ معالجوں کا ایسے مریضوں کو حرکت کرنے سے منع کر دینا کوئی علاج نہیں ہے۔عام زبان میں اسے کمر کا درد ،حکیم اسے وجع القطن اور ڈاکٹر لمبے گو اور سپ ڈسک کہتے ہیں۔ کمر کے اس مرض میں گرفتار ہونے سے ارد گرد کے عضلات(مسلز)جھلی دار بند (لگے منٹس) اور چپٹے گول قرص ڈسکس پورے طور پر پھیلنے اور سکڑنے سے عاجز ہو جاتے ہیں۔اس خرابی کی وجہ سے مریض کو سیدھا کھڑا ہونا اور دائیں بائیں حرکت مشکل ہو جاتا ہے۔بعض مریض تو کبڑے ہو کر چلنے پھرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ریڑھ کے مہرے جب عضلات اور نازک بندوں کے سخت ہو جانے سے جھکاؤ قبول کرنے میں وقت محسوس کرتے ہیں۔تو چارونا چار مریض کمر کو جھکا کر چلنے لگتا ہے۔
ہزاروں مریضوں کا علاج کرنے کے بعد میری یہ رائے ہے کہ صرف دو فیصدی مریض اس مرض کے شروع ہوتے ہی علاج کی طرف توجہ دیتے ہیں۔
متعدد مریض چھ مہینے تک شدت تکلیف کے دوران دوا کھا کر پھر اپنے کارو بار میں مشغول ہو جاتے ہیں اور علاج نہیں کراتے۔حقیقت یہ ہے کہ دن بدن کمر کی قوت ِمدافعت کمزور ہوتی اور علاج دشوار ہوتا جاتا ہے۔چند ماہ بعد جب مرض کا زہر ریشوں، اعصاب اور بندوں میں آہستہ آہستہ پھیلتا ہے جاتا ہے۔ کبھی معمول حرکت کرنے سے اور کبھی نزلہ ،زکام یا سخت قسم کا بخار ہونے سے درد شدت اختیار کر لیتا ہے۔ پھر تو چھینکنے اور کھانسنے سے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔ریڑھ کے ستون پر دباؤ بڑھتے بڑھتے کمرکے مقام پر آکر شدت درد کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔ جب اس کا دباؤ کولہے کی بڑی خونی رگ پرپڑنے لگے تو ٹانگیں اکڑ کر چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا ہے۔عموماً25سے50 سال تک کی عمر میں اس مرض کے حملے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ عورتوں میں عموماً35-40 سال کی عمر میں درد کمر شروع ہو جاتا ہے۔
علاج کے طور پرکمر درد کے مریضوں کو صبح کے وقت روٹی اور ڈبل روٹی بند کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔صبح دودھ یا چائے کے ساتھ گل عباسی استعمال کراتا ہوں ۔اس پودے کی جڑ تین سے آٹھ نو انچ لمبی ہوتی ہے۔رنگ بینگنی اور ذائقہ تلخ ہوتا ہے۔اس گل عباسی کے پھول سرخ ،زرداور سفید ہوتے ہیں۔پھول والی مل جائے تو اس کی جڑ احتیاط سے کھود کر نکالی جائے۔جڑ کو ایک دو مرتبہ دھو کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لئے جائیں تاکہ سوکھ جائے۔سایہ میں خشک کرنا بہتر ہے۔ورنہ دھوپ میں چند روز پھیلا کر خشک کر لیں۔پھر اس کو کوٹ کر چھلنی سے چھان کر رکھ لیں۔
یہ پسا ہوا سفوف 6گرام سے15گرام تک صبح دودھ یا چائے کے ساتھ چند روز استعمال کرنے سے اللہ کے فضل سے کمر کا درد اور جوڑ بند مضبوط(مہرے کا ٹلنا)یا کمر کے مہروں کے درمیان چربی کا کم ہونا دور ہو گا۔بعض سمیت والے مریضوں کو اس کی تازہ تازہ جڑ 15گرام بھون کر ہفتہ دو ہفتہ کھلا کر تندرست ہوتے دیکھتا ہوں۔ عموماً ہر شہر میں کسی نہ کسی باغ میں یا گھر میں گل عباسی مل جاتی ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
گل عباسی (Mirabilis Jalapa)
دیگر نام: مراہٹی گل بسا ‘ پنجابی میں پتر آشو ‘ بنگلہ میں کرش کلی یا گلاباسی اور لاطینی میں میرابلس جیلپا کہتے ہیں۔
ماہیت : دواڑھائی فٹ اونچا ایک سدا بہار پودا ہے۔ اس کو بلعموم باغات میں خوبصورتی کے لئے لگاتے ہیں۔ موسم سرما میں پھول کم دیتا ہے۔ پتے مثلث ‘ نوک دار‘ شاخ نرم و نازک ‘ گروہ دار اور ادھر اُدھر پرا گندہ ہوتی ہے۔ پھو ل مرناری شکل کا سرخ ‘ سفید یا زرد ہوتا ہے۔ تخم سیاہ شکن دار حب آلاس کے مشابہ ہوتے ہیں۔ جڑ کچالو کی مانند لمبی مخروطی شکل کی ہوتی ہے۔
مزاج: پتے ۔۔۔۔ گرم خشک درجہ سوم ۔ پھولمعتدل ۔ جڑگرم و تر ۔ تخمسرد و خشک۔
افعال:پتےبیرونی طور پر استعمال کرنے سے محلل و منضج اور محلل اورام ‘ اندرونی طور پر کھانےسے مسہل بیان کئے جاتے ہیں۔ پھولدافع بواسیر ۔ جڑمقوی باہ اور مصفیٰ خون ۔ تخمقابض مجفف اور حابس الدم ہیں۔
استعمال :پھوڑے پھنسیوںکو تحلیل کرنے نضجدیتے اور ان کو پھوڑے کے لئے (برگؑعباسی) تیل سے چپڑ کر گرم کر کے باندھتے ہیں یا پانی میں پیس کر ضماد کر تے ہیں۔ استسقاءاور یرقانمیں اس کے پتوں کی بھجیه پکاکر دن میں دو تین مرتبہ روٹیکے ہمراہ کھلاتے ہیں۔ جس سے اسہالآکر مادہ مرض خارج ہوجاتا ہے۔ گل عباسی (پھولوں) کا سفوف بنا کر بواسیرمیں کھلاتے ہیں۔ اور جڑکا جوشاندہ بنا کر وجع المفاصل‘ آتشک اور جرب و حکهمیں پلاتے ہیں اور جڑکا سفوف بنا کر تقویت باہکے لئے کھلاتے ہیں۔ تخموں کا سفوف بنا کر سیلان الراحماور کثرت حیضمیں کھلاتے ہیں۔ جڑ مقوی باہاور مصفیٰ خون ہے ۔ اس کو گوشت کے ساتھ بھون کر تقویت باہ کے لئے کھلاتے ہیں۔ اس کے پھول ‘ سکه اور ہڑتالکو کشتہ کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔
نفع خاص :مقوی باہ بواسیر میں مصلح: بنات سفید اور تازہ دودھ ۔
مقدار خوراک :جڑ سات سے دس گرام یا سات ماشہ سے ایک تولہ تک۔
تخم اور پھول کی مقدار خوراک :پانچ سے سات گرام یا ماشے۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق